اتوار، 18 اگست، 2013

اداریہ - رویبضہ بولے گا - ماہنامہ المعراج ماہ فروری 2013


رویبضہ بولے گا

اداریہ

                                                                                                    مدیر مسؤول

       یہ دور میڈیا کا دور ہے کتابت و صحافت اور قرطاس وقلم کا زمانہ ہے اسی لئے شاید اللہ رب العزت نے جو اپنے امور میں واحد الاحد ، بے نیاز ہے کسی کے مشورے یا تجویز کا قطعا محتاج  نہیں اپنے پیارے نبی محمدرسول اللہﷺ پہ جب اولیں وحی غار حراء میں نازل  فرمائی وہ  وحی پڑھائی  سے متعلق تھی ارشاد باری تعالی ہے:
                ((اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ)) [سورة العلق:1]
                "اپنے اس رب کے نام سے پڑھوجس نےآپ کوپیدافرمایا"
                اور  جب سورہ "ن"نازل  فرمائی تو اس  میں "قلم" کی قسم کھائی  اور فرمایا : (ن و القلم وما يسطرون) اور ہمارےنبی محمد رسول اللہ ﷺ چونکہ آخری رسول ہیں ، دین کا مل کے حامل ہیں،اور اب انکے بعد قیامت تک کوئی دوسرار سول آنے والا نہیں  اور نہ ہی کوئی  معجزہ   ظاہر ہونے والا ہے،کیونکہ معجزہ نبیوں کے ہاتھوں پہ ظاہر ہوتا ہے اور جب نبی ہی نہیں آئے گا تو معجزہ کیسے اور کیونکر ظاہر ہوگا، جب نبی ہی نہیں تو معجزہ کس سے صادر ہوگا ۔ اور یہ بات عام ہے کہ ہر نبی و رسول کو جو معجزات عطا کیا گئے وہ ان کےاحوال وظروف کی رعایت اور ضروریات کے مناسب اس زمانے کےحالات وضروریات کے  مناسب ہواکرتےتھے،چنانچہ ہمارے نبیﷺ کو جتنے معجزات عطا کئے گئے وہ واقعی  آپ کے  حالات وظروف کے مطابق وموافق تھے۔ انہیں معجزات میں سے قرطاس  وقلم کا عام رواج پانا بھی ایک معجزہ صادق آتاہے اور   تاقیامت باقی رہنا بھی ثابت ہوتاہے کیوں کہ دین اسلام  قیامت تک باقی رہنے والا دین ہے اوراس کے بعد کوئی نیادین آنے والانہیں ہے ۔
آج چاروں طرف لکھنے پڑھنےکا عام رواج  ہے، کاغذات  کے استعمال کی بہتات  نظر آرہی ہے، گویا اللہ تعالی نے قرآن کی سورۃ "ن"میں (ن و القلم وما يسطرون) نازل فرما کر   اس کی طرف  اشارہ  آج سے پندرہ سو برس  پہلے ہی کردیاتھا  کہ آنے والا دورقلم وقرطاس ،لکھنےاورپڑھنے پڑھانے کا دور ہے اور یہ سلسلہ تاقیامت دراز رہنے والاہے۔جو قرآن کریم کی زندہ صداقت اور اس کے کلام ربانی ہونے کی سب سے عظیم دلیل بھی ہے((آلر كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ))۔
لکھنا پڑھنا بہت اچھی بات ہے،موجودہ دور میں جسے لکھنا پڑھنا  نہیں آتا اسے جاہل وگنوار کہا جاتا ہے ۔ آج جدھر دیکھئے ادھر پڑھنے پڑھانے کی "ہوڑ" لگی ہوئی ہے، جسے دیکھووہی اپنے  بچوں کی تعلیم کی فکر میں ڈوباہواہے،امیرتوامیرغریب سے غریب تر شخص بھی اپنی اولاد کو جہالت کی گھٹاٹوپ تاریکیوں سے نکال کرعلم وگیان کی روشنی میں لانے کی انتھک کوشش میں لگاہواہے، ایک مزدورصرف پڑھانے کے لئے  دو گنی محنت کر رہا ہے،پیٹ کاٹ کر اسکول کی فیس اور اس کے اخراجات پوری کرتاہے اوراپنے لاڈلوں کو دیش کا پڑھالکھاشہری بناناچاہتاہے تاکہ ملک ووطن کی تعمیر میں اسکااوراس کے بچوں کا بھی یوگدان رہے اور یہ ہمارے ملک کے لیے بڑی خوش  آئند بات ہے ، حالانکہ یہ سب حکومتوں کی ذمہ داریاں ہیں کہ ملک کے بچوں کی تعلیمی پیاس کو بجھائے مگر افسوس کہ ہم مغرب ویورپ سے ساری گندگیاں بنام"ثقافت وکلچر" اپنے ملک میں ایمپورٹ توکرلیتے ہیں۔اور فخر کرتے ہیں لیکن اچھائیوں کے لئے اندھے ، گونگے اوربہرے بن جاتے ہیں ۔کاش! دیش کے دانشوران اچھائیوں کی بھی بر آمدگی کی بات  کریں اور ملک میں اس کے لئے فضا ساز گا ر کریں ۔بچوں کی فری تعلیم، فری علاج کی فکر کریں ورنہ آج کے دور میں تو تعلیمی موسسات وادارے بھی تجارتی مراکز بن چکے ہیں اچھی اور اعلی تعلیم وتربیت کے نام پر خوب لوٹا جاتا ہے، لوگوں سے دس دس بیس بیس ہزار فیسیں وصول کی جاتی ہیں اور وہ بھی نہایت شان سے ، ورنہ آپ کا بچہ اسکول سے خارج کردیا جائے گا۔پیسے بھی دیتے ہیں اور غلامیت نے اتنا بزدل بنادیاہے کہ خوف اخراج سے کانپتے بھی ہیں  اورایسا کیوں نہ ہو آخر آپ کابچہ تھرڈ ورلڈمیں رہکر فرسٹ ورلڈ کی تہذیب وتمدن سیکھ رہاہےاوروہاں کی خوشبو جو لے رہا ہے قیمت توچکانی ہی پڑے گی،اور اقبال نے کتنی سچی بات کہی ہے:
 کہ غلامی میں بدل جاتاہے قوموں کاضمیر
آج ہمارے دماغوں پرانگریزاورانگریزی دونوں کابھوت سوار ہے ،آپ کے پاس علم ہو یانہ ہو اخلاق ہویانہ ہو روداری تہذب وشرافت ہویا نہ ہو آپ جس  سبجیکٹ کو پڑھ رہے ہیں اس میں کچھ معلومات ہو یانہ ہو بس آپ کو انگریزی اچھی آنی چاہئے  آپ انگریزی پڑھتے ہوں بولتے ہوں  لکھتے ہوں آپ" مہان" ہیں  اورایک ہمارے دیش کی بھاشاہے جو بیچاری خود اپنے ہی سپوتوں کے ہاتھوں  ذلیل ورسوا ہورہی ہے  میں نے سناہے ۔نہیں ! نہیں ! بلکہ خود اپنی آنکھوں  سے یہ منظردیکھاہے کہ اس کا ایک نائک چندسپوتوں اوردیش بھگتوں  کے ہاتھوں بھری محفل میں تھپڑ کھا رہاتھااور پورا دیش اس غدارانہ منظرکوٹی ۔وی پر دیکھ رہاتھا کیوں ؟؟ اس لئے کہ اس نے اپنی زبان سے اس کانام  لے لیاتھا جسے ملک کی سرکاری زبان ہونے کا اعزاز وشرف حاصل ہے ،اس کانام لیوا پٹتارہا اوراس کے نام پر روٹیاں سینکنے والے تماشائی بنے تماشہ دیکھتے رہے اس کی عزت اسمبلی ہال میں لٹتی رہی  اسکی عصمت خوداپنوں کے ہاتھوں  تارتار ہوتی رہی بیچاری ہندی روتی،چیختی،بلبلاتی رہی،اسےذلیل کیاجاتارہا اوراسی جگہ بدیسی زبان انگریزی ہنستی مسکراتی قہقہے لگاتی رہی   ۔زندہ باد اے زباں توزندہ باد!
                "علم" "گیان" انسان کوحلم وبرد باری سکھاتا ہے ،صداقت وشجاعت سکھلاتا ہے ، امانت کی حفاظت اور عزت  وآبروکی پاسداری ونگہبانی بذریعہ علم ہی انسان حاصل کر سکتاہے ،دنیوی واخروی فلاح وبہودپانےکے لئے علم بیحد ضروری ہے،کیوں کہ "عمل" سے قبل" علم "ہے ۔
                اللہ تعالی نے فرمایا :((فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ))
                "لا الہ الا اللہ " کا علم حاصل کرو"  [سورۃ محمد:19]
                مگر افسوس دور حاضر میں علم کارواج جتنا عام ہوا ہے، لکھنے اورپڑھنے کارجحان جتنابڑھاہے،علمی نشر واشاعت میں جتنی کثرت اور  جتنی  تیزی آئی   ہے  وہیں کچھ لوگوں نے اس "علم" کو ضلالت وگمراہی  اور شیطانیت وحیوانیت اوردہشتگردی وبربریت،عریانیت وفحاشیت پھیلانے کا ذریعہ بنالیا ، دنیا پرستی ،شکم پروری ، خواہشات نفسانی کی تسکین وتکمیل میں وہ نفع ونقصان خیر وشر ،شرم وحیا قوم وملت کاسودوزیاں سب کچھ بھول گئے،قرطاس وقلم کو بیچ دیا ،خرد کانام جنوں اور جنوں کا خرد رکھ دیا،بے ضمیری شیوہ بن گئی، زبان وادب کو بھی اپنی رذیلانہ صفات میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی، ہمارے دیش کی اس "زبان" کو جسے "اردو" کہتے ہیں جوگنگاجمنی تہذیب کامیناراورعلمبردارہے کچھ نادانوں نے اسےبھی متعصب بنادیا،اسکے وقار وعظمت ،حلاوت وشیرینی اورمتانت وسنجید گی اور عزت و آبرو کو لوٹ لیا ۔۔۔۔ یقین نہ آئے تو ذرا پرنٹ میڈیا کے چند ایک نامہ نگاروں ،رپورٹروں اور الیکٹرونک میڈیا کے چندایک رپوٹروں کی زبان وادب کو اخبارات میں چھپی خبروں کے لب ولہجے اور مستعمل جملے پڑھکردیکھ لیں یاٹی وی کے اسکرین پہ دی جانے والی رپورٹ سن لیں اندازہ لگ جائے گا کہ ہم زبان وادب کا خون خود اپنے  ہاتھوں  کس طرح اورکس پیمانے پہ کر رہےہیں  ۔ہمارے نبی کریم ﷺ نے کتنی سچی بات فرمائی ہے جس میں زبان وادب اور اخلاق و کردار کی سطحیت  وگراوٹ کو قیامت کی نشانی قرار دیا ہے ،لیجئے آپ بھی مشاہدہ فرمالیں:
                عن طارق بن شهاب-رضي الله عنه- عن النبي: ((ان بين يدي الساعة تسليم الخاصة وفشو التجارة حتى تعين المرأة زوجها على التجارة وقطع الأرحام وشهادة الزور وكتمان شهادةالحق وظهورالقلم)) .
               طارق بن شہاب  کہتے ہیں "قیامت سے پہلے یہ نشانیاں ظاہر ہوں گی۔جان پہچان کے لوگوں کو سلام کہنا۔تجارت کاعام ہونا حتی کہ بیوی اپنے شوہر کی تجارت میں مدد گار ہوگی،قطع رحمی ،جھوٹی گواہی دینا  سچی گواہی کو چھپانا ،اور قلم کا ظاہر ہونا
                                                                 [اسے امام أحمد بن حنبل نے روایت کیاہے - (1 / 407)]
                          عن أبي هريرة-رضي الله عنه-قال قال رسول الله : ((انها ستأتي على الناس سنون خداعة يصدق فيها الكاذب ويكذب فيها الصادق ويؤتمن فيها الخائن ويخون فيها الأمين وينطق فيها الرويبضة قيل وما الرويبضة قال السفيه يتكلم في أمر العامة)).
                ابو ہریرہt  کہتے ہیں رسول اللہنےفرمایا: "عنقریب لوگوں پر ایسا وقت آئے گا جس میں ہر طرف دھوکا ہی دھوکاہوگا ، جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا، سچے کو جھوٹا سمجھا جائے گا ،خائن کو امانتدار اور امانتدار کو خائن سمجھا جائے کا اور "رویبضہ"خوب بولے گا ، عرض کیاگیا یا رسول اللہ رویبضہ کون ہے؟۔آپ نے فرمایا :عامۃ الناس کے معاملات پر اختیار رکھنے والا کمینہ آدمی"   [اسے امام احمد نے روایت کیاہے   مسند أحمد بن حنبل - (2 / 291)]
                سبحان اللہ ! لگتا ہے آج ہم بالکل اسی وقت اوردور سے گذر رہے ہیں جسکی طرف پیارے نبی نے آج سےچودہ سو برس قبل ارشاد فرمادیا تھا ۔   پیغمبر اسلام کا لفظ لفظ موجودہ  دور کےاحوال کی تصویر کشی کرہاہے۔ چنانچہ آج یہی ہورہا ہے ؛ ایک عام آدمی جسے کوئی اختیار حاصل نہیں اور نہ ہی وہ عامۃ الناس کا ذمہ دار بھی ہے سوائے اس کے کہ وہ کسی ایک ایسی پرائیویٹ کمپنی  کا ملازم ہے جسے "میڈیا" کہاجاتاہےاورحکومتوں نے اسے تھوڑی سی اظہارِ رائے کی آزادی دی ہے اوراب وہ بولے جارہاہے اور خوب بول رہاہے بہت بول رہاہے ، جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا بنا کر لکھے جارہاہے، قلم کا معاوضہ  وصول کر چکا ہے، تعصب ونارواحمایت کازہرقرطاس وقلم کے ذریعہ قوم وملت کے اندر انڈیل رہاہے ، آزادی کا نام لیکر شتربے مہار بن چکا ہے ، اب کوئی بھی ایسا سنجیدہ طبقہ یامہذب شخص نظرنہیں آتاجو اس بے لگام "رویبضہ"کو لگام لگانے کی بات کرے ، کیوں کہ اس کے گلے میں" آزاد میڈیا " کی ڈوری پڑی ہوئی ہے ، کہتے ہیں اسے ٹوکنا "بندر کی دم پہ پیر رکھدینے" کے مترادف ہے،  وہ بالکل آزاد ہے۔مادرزاد آزاد ہے ۔ وہ جو زبان چاہے استعمال  کرے جس کی چاہے سر عام  کھِلی اڑائے،یااس کی بے عزتی کرے ، بے گناہ کو گنہگار کہے اور گنہگار کی بے گناہی کا ڈھڈ ھورا پیٹے ،کو ئی ذلیل ورسواہواس کی بلاء سے ،بلا تحقیق وتدقیق خبریں پھیلائے ، اہالیان وطن کو گمراہ کرے ، قوم وملت کے معززین کے لئے نہایت ہی سوقیانہ اسلوب اور بازاری الفاظ استعمال کرے ، شرفاء کانام بھی لکھے یابو لے تونا مکمل ، ادب سے بالکل عاری، تہذیب وشرافت سے انتہائی دور --- اسےکوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے ؟ میں سمجھتاہوں کہ یہ کسی بھی اخباریا ٹی وی کے مالک کی پالیسی نہیں ہوسکتی ۔کیونکہ یہ صحافت ومیڈیا کی توہین  ہے ۔
اور کہیں قیامت کی یہی وہ نشانی تو نہیں جس کی طرف ہمارے نبی نے "رویبضہ بولے گا " کہکر اشارہ فرمایاہے ؟  ۔سوچوذراغورکرو" الیس منکم رجل رشید " ۔
               میں پاکیزہ قلم وذہن رکھنے والے دانشوران  قوم وملت کی عدالت میں اپنا یہ چھوٹاسامدعارکھنے کی جرات کررہاہوں  اوردرخواست گذارہوں کہ للہ ایسے نااہل ،عصبیت زدہ،جاہل اور زبان وادب سے نابلدلوگوں کو میدان قلم وقرطاس میں اترنے کی اجازت ہرگزہرگز نہ دی جائے  جب تک کہ ان کا ذہن صاف وستھرانہ ہوجائے اور جب تک کہ ان کی زبان اورقلم  تہذیب وادب کے آبِ زلال سے پاکیزہ نہ ہوجائیں ،تاکہ قلم وقرطاس کے تقدس کو اور اس کی عظمت کو برقرار رکھاجاسکے اورآنے والی نسلوں کی لسانی، ذہنی ،فکری ،قلمی ،دینی وروحانی تربیت اچحی طرح کی جاسکے ۔ میں میڈیا سے جڑے تمام بھائیوں  سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنی امیج کو پہچانیں ،اپنی اپنی ذمہ داریوں کا خیال رکھیں"  انزلوا الناس منازلہم "  لوگوں کو ان کے رتبہ ومقام میں رکھکر بات کریں۔  اس ضا بطے کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں۔ ارے—تُرے سے کسی سے بات کرنا یہ نہ ہی کسی ذمہ دار کاکردارہوسکتا ہے اور نہ ہی کسی شریف ومہذب اورتعلیم یافتہ شخص  کاطریقہ ، آئیے "ماہنامہ المعراج "کے ذریعہ ہم جہاں قوم وملت کی دینی واخلاقی اصلاح کریں وہیں زبان وادب اور وطن عزیز ہندوستان کوبھی بنانے اور سنوارنے میں شریک  سفربنیں   ۔ اوراپنے علم کا صحیح وسچا استعمال کرکےاللہ عزوجل کوراضی کریں اوراس علم کی روشنی سے پیارے وطن کو بھی روشن وتابناک وخوشحال بنانے میں حصہ لیں  اللہ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے  آمین یا رب العالمین ۔
جو تھا نہ خوب وہی بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کاضمیر
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

سیدمعراج ربانی میرمحمداسماعیل
سعودی عرب

almeraj.monthly@gmail.com   00966501204620


اداریہ ماہنامہ المعراج ماہ جنوری 2013

اداريه

                                     مدير مسؤول

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على أشرف الأنبياء والمرسلين نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين الى يوم الدين. أمابعد:
                اللہ عزوجل کا بے پایاں فضل وکرم ہے جس نے مجھ کمزوروناتواں بندے کواس بارعظیم کے اٹھانے کی توفیق بخشی  اور  شہر بنگلور  جو وطن عزیز کا خوبصورت شہر ہے جسے اہل محبت  پیار سے"گارڈن سٹی"(Garden city)اور اہل زبان وادب "شہرگلستاں" کہتے ہیں اس میں ایک حسین پھول کااضافہ کرنے کی سعادت عطافرمائی۔
 یوں تو اس شہر گلستاں میں مختلف رنگ وبو کے ہزار ہا ہزار پھول  روزکھلتے  ہیں  اورہرپھول الگ الگ رنگ وبواپنے اپنے دامن میں بسائے رہتاہے، بقول کسے:
ہر گلِ را رنگ و بوئے دیگریست                                ہر بیانِ  را جمال دیگر است
   مگر اس نئے سال 1434 ہجری سن 2013 عیسوی کے آغاز پر ہم نے جو پھول آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے اپنی نوعیت کا الگ ہی پھول ہے، اس کا رنگ، اسکی مہک، اسکی خوشبو، اسکی صورت اور اسکی چمک ودمک بلاد حرمین شریفین کے مرغزار دعوت میں بکھرے ہؤے سیکڑوں گل وبوٹوں کی رہین منت ہے  اسے شرف قبولیت بخشئے۔
 ابھی اس نوزائیدہ کو پھول کہنا شایدمناسب نہ ہواس لئے اسےابھی کلی کہتے ہیں بالکل نوخیز کلی جومسکرانااورکھلنا چاہتی ہے اور اپنی عطربیزیوں سے وطن کے مشام جاں کو معطر کرنا چاہتی ہے ، اسےاپنی دعاوں سے نوازئیے ۔
آج پوداہوں توسب رشتے ہیں مجھ سے بے خبر
جب شجرہوجاوں گا سب چھاوں میں آجائیں گے
  میں نے  یہ سوچا ہے کہ اسے دیگر تمام جرائدو مجلات اور میگزین سے ذرا ہٹ کر کچھ نیاکردکھاناہے ،عقیدہ و عبادات،فقہ وفتاوے،حلال وحرام،فلاح انسانیت و اصلاح  سماج ومعاشرہ اوراسلام کی  چھوٹی چھوٹی باتوں سے لیکر بڑی بڑی مفید باتوں کو نہایت ہی آسان اسلوب میں ڈھال کر آپ کی خدمت میں پیش کرنا یہ ہمارافرض اولیں ہے، یہ آپ سے وعدہ ہے انشاء اللہ ۔
                اسلاف اور اکابرین امت سے آپ کے رشتے مضبوط سے مضبوط تر  بنانا وقرآن و سنت کو ان کے فہم وسمجھ کے سانچے میں ڈھال کر سمجھنااورسمجھانا، اورمنہج وطریقہ سلف کو لازم پکڑنا مجلہ " المعراج " کی بنیادی ترجیحات ہوگی جسے کسی بھی حال میں نظرانداز نہیں کیا جائے گا۔ ان شاءاللہ۔
                ہماراعقیدہ ہے کہ ہماری پستی وخواری کی وجہ جہاں عقیدہ توحید سے انحراف اور سنن رسول  سے بغاوت ہے،وہیں  اپنے مذہب اور بانی مذہب اور جملہ اسلاف واکابرین اسلام کی تاریخ کو فراموش کردینا بھی ہے کیوں کہ جوقوم اپنی تاریخ اور اس کے بنانے والی مایہ ناز ہستیوں کو بھلا دیتی ہے اس کے تمام جذبات اور امنگیں ،حوصلے اور ولولے سلب ہوجاتے ہیں جو فی الحقیقت ملل واقوام کی زندگی وتحرک کا سبب اور نشونما کا باعث ہوتے ہیں ، انہیں کے ساتھ ساتھ اس قوم کانام بھی مٹتا چلاجاتاہے ۔ 
جو  بھلا   دیتے    ہیں    اسلاف    کا   منھج    معراجؔ
ان    کا   رشتہ    نہیں    اسلام    سے    باقی      رہتا
رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے: ((انماالاعمال بالنيات))" بیشک اعمال کا دارومدار نیتوں پرہے" مثل بھی مشہور ہے :"جیسی نیت ویسی برکت"  اللہ تعالیٰ ہماری نیتوں کی اصلاح فرمائے آمین۔
ویسےکسی بھی عمل کی قبولیت کے لئے دو بنیادی شرطیں ہیں :
1  اخلاص وللہیت: جس کامفہوم ہے کہ عمل صرف رضائے الہی کے لئے ہو، خالص اس کی خوشنودی کاحصول مقصودومطلوب ہو۔"ریا" یعنی نام ونمود، دکھاواایک تویہ شرک اصغر کے زمرے میں آتاہے، دوسرے یہ کہ یہ جس عمل میں داخل ہوجائے اس عمل کو ضائع وبرباد کردیتاہے۔
اللہ تعالی کافرمان ہے:
    ((وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ))
" اور ان کو حکم تو یہی ہوا تھا کہ اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں"                                    [ سورۃ البینۃ :4]
دوسری جگہ اللہ کافرمان ہے:
((وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَنْثُورًا)).
                "اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کر دیں گے" [سورہ الفرقان: 23]
2  اطاعت رسولﷺ: دوسری شرط یہ ہے کہ وہ عمل سنت رسولﷺ کے مطابق ہو۔ یعنی جس طرح رب ذوالجلال کی عبادت خالص ہو اسی طرح رسول کی اطاعت بھی بلا ملاوٹ خالص ہو جیسا کہ نبی کریم ﷺ نےفرمایا:
عَنْ عَائِشَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَاقَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللهِ : ((مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ))   
                                                                                                                                [صحيح البخاری(3 / 241)]
            "ہمارے لائے ہوئے اس حکم میں جس نے بھی کسی نئی چیز کااضافہ کیا جواس میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے"
پس یہ دونوں شرطیں اعمال کی قبولیت کاسبب  ہیں۔
 اللہ تعالی ہمیں اخلاص نیت و عمل  دونوں کی توفیق بخشے آمین۔
جنوب ہندوستان کے شہربنگلور کی اُ فُق سے پہلی بار طلوع ہونے والا یہ دولسانی حق وصداقت کا پاسبان اور منھج سلَف کاترجمان "مجلہ المعراج" اپنے دامن میں ڈھیروں سارے دینی،علمی،ثقافتی،ادبی اوراصلاحی و منھجی سوغات لیکرآپ کے دونوں ہاتھوں میں مچل رہاہے اوراپنی خوش نصیبی پہ شاداں وفرحاں ہے ، اسی طرح آپ کی شوخی چشم سے محظوظ ہورہاہے اورآپ سے دست بستہ عرض کناں ہے کہ مجھے میزوں ،الماریوں کی زینت نہ بنائیے  بلکہ اپنے دلوں کی گہرائیوں  میں بسالیجئے ، اسے اپنے دوستوں تک پہونچائیے، اور اپنے  چشمہ فکروفن اورقلم وسخن سے سیراب کیجئے اورپروان چڑھایئے، اس کی سطرسطر سے اٹھتی ہوئی منھج سلف کی خوشبووں سے اپنے دل وجان کو معطر کر لیجئے ۔ دامے ،درمے، قدمے،سخنے جس حیثیت کا بھی آپ خودکو اہل سمجھتے ہیں بلاجھجھک اس کے لئے دست تعاون بڑھائیے،اورذخیرہ آخرت کیجیئے۔ یہی اس کی عزت افزائی ہے۔
            "ماہنامہ المعراج" شمال وجنوب،مشرق ومغرب کا عطرِ مجموعہ ہے ،دکن جسے مادر اردو ہونے کا امتیازی ونمایاں اورتاریخی شرف حاصل ہے جسکی شفقتوں نے اسے شعورزندگی ،احساس  پرواز وبلندی اورشیریں سخنی بخشی ہے۔ دہلی جس نے اسے پروان چڑھایا، اس کے دست وبازو مضبوط بناکر تندرست وتواناکیا۔لکھنو جس نے  اسکے گیسووں کوسنوارا،تہذیب وادب ،صبابت وملاحت کا غازہ  اس کے رُخساروں پہ مَلا،آنکھوں میں شرافت وحیاءکا کاجل لگایا،چالوں میں سُبُک خرامی بخشی،آوازمیں گنگناتے ہوئے جھرنوں  کی نغمگی عطاکی، تُنک مزاجی جسکا خاصہ بنی، نزاکتوں کے زیورسے جسے آراستہ وپیراستہ کیااس طرح یہ اپنی تمام حشرسامانیوں کے ساتھ سج سنورکر "مجلہ المعراج" کے پیکر میں ڈھل کردورودرازکاسفرکرکے آپ کی خدمت میں حاضرہے۔نقاب کشائی آپ کا حق ہے،باصرہ نوازی کی زحمت فرمائیں اوردل ودماغ کوفرحت بخشیں ،آپکو "ماہنامہ المعراج" کے ساتھ چھوڑ کر اجازت چاہتاہوں اگلے ماہ پھر اک نئی آن وبان کے ساتھ حاضر خدمت ہوں گے تب تک کے لئے اللہ حافظ ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
خطاؤں کاپیکر،آپ کی دعاؤں کا طالب:
سیدمعراج ربانی میرمحمداسماعیل

سعودی عرب
2013-1-1
00966501204620    almeraj.monthly@gmail.com